Wednesday 8 November 2017

خواتین میں بریسٹ کینسر کی وجوہات، پرہیز اور علاج

خواتین میں بریسٹ کینسر کی وجوہات، پرہیز اور علاج

(ڈاکٹر نگہت نسیم۔سڈنی)
برییسٹ کینسر کو عموما چھاتی کا سرطان بھی کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے سرطان میں سرطانی خلیات ، پستان کے خلیات  میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ پستان دراصل غدود اور عضلات پر مشتمل نرم گوشوں اور باریک نالیوں  کے مجموعے سے بنا ہوا عضو ہے۔ ہر گوشہ  پھر مزید چھوٹے جھوٹے گوشوں پر مشتمل ہوتا ہے جنکو فصیص ..لوبز..  کہا جاتا ہے ، یہ فصیص پھر مزید چھوٹے بلبلہ نما اجسام بصلہ ..ڈکٹس..  سے ملے ہوتے ہیں جہاں دودھ بنتا ہے جو باریک باریک نالیوں  کے زریعے نوک پستان ..نپل..   تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس بنیادی ساخت کے علاوہ پستان میں خون کی رگیں اور آبگونہ کی نالیاں بکثرت ہوتی ہیں۔ آبگونی نالیاں کہا جاتا ہے۔ یہ نالیاں آبگونہ یا آب زلال (لمف) کو جمع کرتی ہوئی آبگونی عقدوں تک لے جاتی ہیں۔ آبگونی عقدے چھوٹے جھوٹے گرہ نما اجسام  ہوتے ییں جو کہ تمام جسم میں ہر جگہ پاۓ جاتے ہیں۔
دنیا بھر کی خواتین میں چھاتی کا کینسر عام ہوتا جا رہا ہے اور ایک حالیہ  رپورٹ کے مطابق دنیا کی خواتین کی کل آبادی میں 16 فی صد عورتوں کو بریسٹ کینسر کا عارضہ لاحق ہے۔بریسٹ کینسر سے پوری دنیا میں ہر سال تقریبا 5 لاکھ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔یہ مرض زیادہ تر پچاس سے ساٹھ سال کی عمر کے درمیان کی عورتوں میں پایا جاتا تھا،  لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں بہت تیزی سے مبتلا ہو رہی ہیں۔برطانیہ میں ہر سال تقریبا45 ہزار بریسٹ کینسر کے کیسز کی تشخص کی جاتی ہے جبکہ ہر نو میں سے ایک خاتون میں ان کی زندگی میں کینسر ہونے کا امکان ہوتاہے ۔بریسٹ کینسر جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک میں بھی بہت پھیل چکا ہے۔ چار ہزار خواتین ہر سال رحم یا بچہ دانی کے کینسر کا شکار ہوتی ہیں۔ اور تقریباٍ دس ہزار اوواریز  یا بیظہ دان کے کینسر کے  اور اڑتالیس سے پچاس ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر نویں عورت اس مرض کا شکار ہوتی ہے۔‘‘
 پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال  85 ہزار افراد سرطان کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ملک میں پھپیھڑوں اور چھاتی کے سرطان کے علاوہ جگر کے سرطان میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ ماہرین صحت کے مطابق یرقان کا عام ہونا اور اس کے علاج میں تاخیر ہے۔اس کے علاوہ آنتوں کا کینسر اور مثانے کے قریب پائے جانے والے غدود کا سرطان بھی عام ہیں۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین کے تقریباً 90ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں جو ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔  پاکستان میں  کینسر کے علاج اور تحقیق کے ادارے انمول یعنی انسٹیٹوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ انکولوجی کے زیر انتظام سیمینار میں کنسلٹنٹ ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر عاصمہ سہیل نے کینسر کے بارے میں اکٹھے کیے گئے اعدادو شمار کے بارے میں بتایا کہ پاکستان میں ہر سال چالیس ہزار خواتین صرف بریسٹ کینسر کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور ہر روز مختلف ہسپتالوں میں اس مرض کے سبب 250 خواتین رجسٹر ہوتی ہیں۔جبکہ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر سے 110 خواتین روزانہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ۔ یہ مرض صرف خواتین میں ہی نہیں بلکہ مردوں میں بھی ہو سکتا ہے ۔ماہرین کے مطابق مردوں میں اپنے ’لائف سٹائل‘ یا طرز زندگی کو بدلنے اور ڈاکٹروں سے طبی معائنہ کرانے میں ہچکچاہٹ ان میں خواتین کی بنسبت کینسر ہونے کے امکانات زیادہ ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔
برطانیہ میں کینسر کی بارے میں تحقیقات کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کینسر جو مرد اور خواتین دونوں میں ہوتے ہیں ان میں خواتین کی بنسبت مردوں میں کینسر کے ہونے کے ساٹھ فی صد اور اس سے ان کی موت ہونے کے ستر فیصد امکانات زیادہ ہیں۔ بریسٹ کینسر اور ایسے کینسر جو جنس سے متعلق ہیں ان کے علاوہ دیگر کینسر اور پھیپھڑوں  کا کینسر مردوں کو زیادہ کرسکتے ہیں۔ خاص طور سے پھیپھڑوں کا کینسر کیونکہ مرد خواتین کی بنسبت زیادہ تمباکو نوشی کرتے ہیں اور لنگ کینسر تمباکو نوشی سے ہوتا ہے۔
نیشنل کینسر انٹیلیجینس نیٹ ورک کے پروفیسر ڈیوڈ فورمین کا کہنا ہے کہ مردوں اور خواتین میں کینسر ہونے کے امکانات میں اتنا فرق ہونے کا کوئی بائیلوجیکل وجہ نہیں ہے اس لیے ہم یہ فرق دیکھ کر تعجب میں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مرد اور خواتین میں کینسر ہونے کے اس فرق سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی اہم وجہ مردوں میں لائف سٹائیل بدلنے کے بارے میں ہچکچاہٹ ہے۔ اگر مرد اپنے لائف سٹائل بدلنے کے بارے میں رویہ بدل لیں تو ان میں کینسر ہونے کے امکانات بہت کم ہوسکتے ہیں۔
مینس ہیلتھ فورم کے چئیرمین پروفیسر ایلن وائٹ کا کہنا ہے کہ مرد اکثر تمباکو نوشی، زیادہ وزن اٹھانے، زیادہ شراب پینے اور خراب کھانا کھانے سے ہونے والے منفی اثرات کے بارے میں کم خبردار ہوتے ہیں اور اس سب سے کینسر ہونے کا خدشہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
بریسٹ کینسر کی وجوہات 
1.بریسٹ کینسر کی وجوہات میں ایک وجہ ہارمونز میں بے اعتدالی ہے ۔۔۔
آئیے اس موضوع  کوذرا تفصیل سے پڑھتے ہیں کہ اس بے اعتدالی سے کون کون سی کیفیات اور مرض لاحق ہو سکتے ہیں ۔ ایام سے قبل جب ایک یا دونوں چھاتیوں میں دور محسوس ہو۔ تھکاوٹ پیٹ میں گیس، سر میں درد، مزاج میں تیزی، افسردگی اور چڑ چڑاپن نمایاں ہو تو اسے سنجیدگی سے لیں یہ دراصل پی ایم ایس ہے۔ یہ علامتیں دراصل خواتین کے جسم میں ہارمونز کا توازن بگڑنے کی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 74 فیصد خواتین ہارمونز کے عدم توازن کا شکار ہوتی ہیں۔ ویمنز نیوٹرشینل ایڈوائزری سروس نے اس حوالے سے دو مرتبہ خواتین کا سروے کرایا۔ پہلی بار 1985ءاور دوسری مرتبہ 1996ءمیں کئے گئے سروے میں معلوم ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی ایم ایس کی سنگینی بڑھتی جاتی ہے ایام شروع ہونے سے قبل 80 فیصد خواتین میں ایک دم سے موڈ کی تبدیلی، ڈپریشن، فکر، پریشانی اور جارحانہ احساسات نمایاں ہو جاتے ہیں ان میں سے 52 فیصد خواتین پیریڈ سے پہلے کے مرحلے میں ان علامتوں سے اتنی پریشان تھیں کہ خودکشی پر غور شروع کر دیا تھا اس کے باوجود ماہرین کا اصرار ہے کہ پی ایم ایس کوئی بیماری نہیں اور یہ سب خواتین کے اپنے دفاع کی اختراع ہے۔
ویمنز نیوٹرشینل ایڈوائزری سروس کے ڈاکٹر ماریون کا کہنا ہے کہ پی ایم ایس 20 ویں صدی کی بیماری ہے اور اس کی بنیادی وجہ جدید معاشرے میں خواتین کے بدلتے ہوئے کردار کے سبب انہیں اپنی غذائی ضروریات کا ادراک نہ کرنا اور بڑھتا ہوا ذہنی بوجھ ہے اگر خواتین غذا کا خیال رکھیں، ورزش کیلئے وقت نکالیں، ذہنی دباؤ سے نکلنے کا کوئی متبادل طریقہ تلاش کریں تو صرف 4 ماہ میں یہ کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔
خواتین میں بریسٹ کینسر کی وجہ اُن میں اسٹروجن کی زیادتی بتائی جاتی ہے۔ تازہ ریسرچ سے پتہ چلا ہے اسٹروجن کو محدود کرنے سے خواتین میں اِس موذی مرض سے شفا یابی کی علامات پیدا ہوئیں ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصی ورزش اورخوراک کومعیار بنایا گیا ہے تا کہ اِس اندز میں سٹروجن میں کمی لائی جا سکے۔  جدید دور میں خواتین میں ہارمونز کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے  کی شکایات بھی بہت عام ہو گئی ہیں یہ ایک ایسی طبی کیفیت ہے جس میں رحم کے اندرونی حصے میں تشکیل پانے والے خلیات جسم کے دوسرے اعضاءمیں بھی جنم لینے لگتے ہیں جہاں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ عنفوان شباب میں قدم رکھنے والی لڑکیاں اور عمر کی 20 ویں دہائی میں موجود خواتین میں اس مرض کی شکایات بڑھ جاتی ہیں۔ بار آوری کی عمریں 11 سے 60 سال عمر کی 10 میں سے ایک خاتون میں یہ شکائت دیکھی جاتی ہے اس کی علامات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ پیریڈ کے ایام ہیں ان دنوں درد کی شدت سے مریضہ خود کو معذور سمجھنے لگتی ہے معمول کے مطابق زندگی گزارنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے جو خواتین اینڈومیٹر یوسیس کا شکار ہوتی ہیں ان میں سے آدھی ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہیں۔
 گلٹیوں سے ہوشیار خواتین میں بریسٹ کینسر سے زیادہ بریسٹ لمپس کی شکایت عام ہوتی ہے یہ چھاتیوں میں بننے والی وہ گلٹیاں یا گومڑ ہیں جسے پول سیٹک یا فابٹر و سیٹک کیا جاتا ہے یہ شکائت 25 فیصد خواتین کو زندگی کے کسی مرحلے میں بھی ہو سکتی ہے تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ایسی گلٹیاں سرطانی خصوصیات کی حامل نہیں ہوتی ہیں زیادہ تر غیر مضر ہوتی ہیں تاہم ان گلٹیوں کی موجودگی میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک اور مصیبت بریسٹ سے زیادہ خواتین میں ایک اور خطرناک خرابی فائبروئڈز   کی دیکھی جاتی ہے خواتین کے تولیدی نظام سے متعلق اعضا میں کہیں بھی غیر مضر قسم کی گلٹیاں بن جاتی ہیں جو رحم کی اندرونی دیواروں سے جڑی ہوتی ہیں بعض اوقات ان کا سائز چکوترے جتنا ہوتا ہے ان کی وجہ سے ایام تکلیف دہ اور بے قاعدہ ہو جاتے ہیں بیضے دانیوں میں فائبر ونڈز اور آبلہ نما تھیلیوں کی موجودگی کی وجہ بیضوں کی تشکیل میں فعل تصور کی جاتی ہے اس کی وجہ ہارمونز کا غیر متوازن ہونا ہے۔
2. بریسٹ کینسر وراثتی کینسر بھی ہے ۔۔
خواتین میں دس فیصد بریسٹ کینسر وراثتی جنیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے جبکہ جنیاتی نقائص کی حامل خواتین کی اپنی زندگیوں میں اس مرض کے ہونے کے80 فیصد امکانات ہوتے ہیں ۔جنیاتی نقص رکھنے والی مریض خواتین کینسر کی زیادہ شرح کے پیش نظر پستان کو آپریشن کے ذریعے ہٹا دیتی ہیں جبکہ دیگر سکریننگ کرالیتی ہیں۔یارکشائر اینڈ ویسکس ریجنل جنیٹک لیبارٹریز سے منسلک پروفیسر ٹیلر کا کہناہے کہ نئی ٹیکنالوجی ناقابل یقین حد تک ڈی این اے کے بڑے حجم میں جنیاتی تبدیلیوں کا سراغ لگانے کیلئے انتہائی طاقت ور ہے جبکہ اسے انفرادی جینزکے تجزیے کیلئے بھی استعمال کیاجاسکتاہے ۔
 یونیورسٹی آف میلیورن سکول آف پاپولیشن ہیلتھ کے پروفیسر جوہن ہوپر نے کہا ہے کہ اس نئے جین کا علم ہونے کے بعد علاج معالجے اور نئی تحقیق کے راستے ہموار ہوں گے۔ پہلی دفعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ چھاتی کے سرطان کی اصل وجہ یہ متغیر جین ہےاوراسی نوعیت کے 12 بدلے ہوئے جین پر مزید تحقیق جاری ہے ۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبورن نے ایک اور حالیہ تحقیق سے انکشاف کیا ہے کہ چھاتی کے کینسر میں مبتلاخواتین سے ان کے عزیزو اقارب کے دیگر اقسام کے کینسر میں مبتلا ہوجانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ سائنسی ماہرین کے مطابق چھاتی کے کینسرمیں مبتلا خواتین کی پوری فیملی میں ایسے خراب جینیاتی خلیے موروثی طور پر شامل ہوتے ہیں جن سے دیگر اقسام کے کینسر پیدا ہوجانے کے خدشات سات گنا بڑھ جاتے ہیں۔ 2 ہزار2 سو خواتین پر کی گئی اس تحقیق میں ماہرین نے یہ واضح کیا ہے کہ اگرکوئی خاتون 35سال کی عمر سے قبل چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوجاتی ہے
تو ان کے والدین اور بہن بھائیوں میں چھاتی، پھیپھڑوں، دماغ، پروسٹیٹ اور دیگر کینسر میں مبتلا ہونے کے خدشات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ سائنسی ماہرین کا ماننا ہے کہ خراب جینز جو کینسر کے خلاف مدافعت کرتے ہیں نسلوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں لہٰذا وقت پر ان کی تشخیص انہیں کئی نسلوں میں منتقل ہونے سے روک سکتی ہے۔
3. کینسر کی وجوہات میں ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ دیگر عوامل بھی شامل ہوتے ہیں ۔۔ 
کینسر ریسرچ فاونڈیشن آف پاکستان کی تحقیق کے مطابق اس کے بہت سے دیگر عوامل کے علاوہ خواتین میں انتہائی تنگ زیر جاموں کا استعمال بھی ہے۔ اس ادارے کی بانی اور ورلڈ انسٹیوٹ آف ایکالوی اینڈ کینسر کی ایشیا کی صدر ڈاکٹر خالدہ عثمانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین چاہے وہ پڑھی لکھی ہیں یا غیر تعلیم یافتہ انہیں اپنی صحت کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں۔
ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے بقول خواتین اپنی جسامت سے بہت کم سائز کے برئزیر پہنتی ہیں جس سے ان کی چھاتیاں مسلسل گھٹی رہتی ہیں اور اندر زخم بن جاتے ہیں جو کہ خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق ’تنگ برئزیر ہی نہیں بلکہ فوم، نائلون اور خاص طور پر کالے رنگ کی برئزیر بھی چھاتی کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ کالا رنگ سورج سے کچھ ایسی  خطرناک شعاعیں جذب کرتا ہے جو انسانی جلد اور خاص طور پر چھاتی کی جلد کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ڈاکٹر خالدہ عثمانی نے چھاتی کے کینسر کے دیگر عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحقیق اور مشاہدے کے مطابق ان خواتین میں چھاتی کے کینسر کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جو کثیر الاولاد ہوتی ہیں جبکہ جن خواتین کے دو یا تین بچے ہوں ان میں کینسر کا مرض کافی کم دیکھا گیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کینسر ہونے کا ایک بڑا سبب ہے اور ڈاکٹر خالدہ کے مطابق بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی بھی دیگر کینسرز کی طرح چھاتی کے کینسر کے مریض بڑھنے کی ایک وجہ ہے۔اس کے علاوہ جو خواتین ایسی جگہوں کے قریب رہتیں ہیں جہاں کیمائی اجزاء کا اخراج ہوتا ہے انہیں بھی چھاتی کے کینسر کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ فصلوں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال اور گھروں میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات بھی کینسر میں اضافے کا سبب ہیں۔
یہ بات انتہائی قابل غور ہے  کہ بڑھتی عمر ، ماہواری کا دیر سے بند ہونا ، بے اولادی اور خاندانی چھاتی کے کینسر یا اور کسی قسم کے کینسر  چھاتی کے کینسر پیدا کرنے کی خاص وجوہات ہیں۔
4 بریسٹ کینسر کی وجوہات میں غذا کا غیر  متوازن ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے ۔۔۔
 پاکستانی خواتین بالعموم خود سے زیادہ اپنے شوہر اور بچوں کی غذا کا خیال رکھتی ہیں لیکن خود اپنی غذا بہتر نہیں رکھتیں جس سے وہ دوسری کئی بیماریوں کی طرح کینسر کا شکار بھی ہو سکتیں ہیں اس لیے متوازن غذا بھی بہت ضروری ہے۔ڈاکٹر خالدہ کے مطابق وہ خواتین جو ڈپریشن کا شکار رہتیں ہیں ان میں چھاتی کا کینسر ان خواتین کی نسبت زیادہ دیکھا گیا ہے جو خوش رہتی ہیں۔ ماہرین کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوشت کو بھوننا ضروری ہے مگر بھنا ہوا گوشت کثرت سے استعمال کرنے کی عادت جسم کے اندر ایسی کیمیاوی تبدیلیاں لانے کا باعث بنتی ہے جس سے جسم کے بعض خلیئے خود بخود متحرک ہو کر سرطان کے عمل کو دعوت دیتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ آگ پر بھنے ہوئے گوشت میں چربی گوشت کے اندر تک سرایت کر جاتی ہے جس کی وجہ سے خون کے اندر ایک مخصوص تبدیلی آنے لگتی ہے یہ تبدیلی بھی سرطان کا باعث بنتی ہے۔ غذائی بداحتیاطی اور موٹاپا کینسر کی وجوہات میں بہت زیادہ اہم ہیں اس کے علاوہ دیر سے شادی اور دیر سے زچگی بھی خواتین میں اس سرطان کا باعث ہوسکتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق  بھارت میں 22 میں سے ایک ، جبکہ پاکستان میں 9 میں سے ایک خاتون چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہوتی ہے۔
5. کاسمیٹکس کا مسلسل استعمال چھاتی کا سرطان پیدا کرنے کا ایک سبب ہے ۔۔ 
ماہر ڈاکٹروں نے سرطان سے متاثرہ خواتین کی بافتوں کا مطالعہ کے بعد جسم میں پیرابنس کی موجودگی کو کینسر کا سبب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حسن و زیبائش کے لیے کاسمیٹکس کا مسلسل استعمال چھاتی کا سرطان پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق  کاسمیٹکس مصنوعات کے دیر تک محفوظ کرنے والا کیمیائی مادہ پیرا بنس چھاتی کے سرطان کا سبب بن رہا ہے۔
6. بلڈ پریشر اور ڈپریشن بھی بریسٹ کینسر پیدا کرسکتا ہے 
 امریکہ میں ایک حالیہ تحقیق کے بعد طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ تنہائی نہ صرف بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ بلکہ خواتین میں بریسٹ کینسر کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تنہائی اور اکیلے پن کی شکار خواتین میں کینسر کی رسولیاں عام خواتین کی نسبت تین گُنا تیزی سے بنتی اور بڑھتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اپنوں سے دوری نہ صرف پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے قوتِ مدافعت بھی متاثر ہوتی ہے۔
جہاں یہ  یہ مرض جان لیوا ہے وہی خواتین کی ایک بڑی تعداد میں  بریسٹ کینسر کی تمام کیفیات سے  نا واقف ہیں۔ لندن برطانوی کاؤنٹی اسٹیفورڈ شائر کی کیلے یونیورسٹی کے محققین نے ایک حالیہ تحقیق میں کینسر کی آٹھ خطرناک علامات شناخت کرلی ہیں ۔ جو انہوں نے  دنیا بھر کی 25تحقیقات کو زیر مطالعہ رکھتے ہوئے شناخت کی ہیں۔جواس مرض میں مبتلا ہونے کے بارے میں واضح اشارے دیتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علامات واضح ہونے کی صورت میں جنس اورعمر کی قید کو نظر انداز کرتے ہوئے مریض پر فوری توجہ اور متعلقہ ٹیسٹ لازمی کروائے جائیں ۔
خطرناک آٹھ علامات ہیں جو کینسر کے خدشات کو ظاہر کرتی ہیں
1. کھانسی کے ساتھ خون آنا
2.خون کی کمی 
3.  پیشاب کے ساتھ خون آنا 
4. فضلے کے ساتھ خون آنا 
5. خواتین کی چھاتی میں گھٹلی یا گومڑ بننا 
6. Rectal  کے تجزیہ میں پروسٹیٹ کینسر کی علامات 
7. خواتین کے پیشاب میں مخصوص ایام کے باجود خون آنا 
8. نگلنے میں مشکلات
محققین کا کہنا ہے کہ اگر ایک یا ایک سے زائد ایسی علامات پائی جائے توفوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہییے ۔ کیونکہ ان علامات کے حامل 20میں سے ایک فرد کوکینسر کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے ان علامات کی شناخت سے کینسر کی ابتدئی تشخیص ممکن ہوسکے گی اور فوری علاج سے مرض پر افاقے اور بتدریج بہتری کا بھی امکان ہوگا۔ کسی گٹلی کی تشخیص کے لئے ابتدائی معائینہ ہر ماہ ایام کے آخری دنوں میں باقاعدگی سے خواتین کو خود کرنا چاہئے -بریسٹ کینسر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے دنیا بھر میں ہرسال چار فروری کو سرطان کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس موذی مرض کی تشخیص، علاج اور بچاؤ کے بارے میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہے۔ کیونکہ ابتداء میں اس بیماری کی تشخیص ہو جانے پر مریض کے صحت یاب ہونے کے 90 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ پانچ سالوں میں بیس سال سے کم عمر لڑکیوں میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ستاسی فیصد خواتین اپنی چھاتیوں کو وقتًافوقتاً کسی قسم کی گلٹیوں کے لیے معائنہ کرتی رہتی ہیں۔جبکہ ایک سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ستر سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین کو اس بات کا علم نہیں تھا کے وہ خود بھی اپن بریسٹ کو کسیگلٹیہونے پر چیک کر سکتی ہیں یا اپنے ڈاکٹروں یا مقامی بریسٹ سکرینگ یونٹ کے ذریعے مفت چھاتی کا معائنہ کروا سکتی ہیں۔ اکثر خواتین کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بریسٹ کینسر ہونے کے خطرات عورتوں کی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں اور بریسٹ سکرینگ سے اس کو ابتدائی دور میں پکڑا جا سکتا ہے، جس میں وہ علامات نظر آجاتی ہیں جو ہاتھ سے محسوس نہیں کی جا سکتیں۔
بریک تھرو بریسٹ کینسر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ: ’یہ بات واضح ہے کے بریسٹ کینسر برطانیہ میں سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر ہونے کے باوجود خواتین اس حوالے سےکافی غلط فہمیوں کا شکار ہیں، اور اب بھی اُن کا رجحان ہے کہ وہ گلٹی کی نشاندہی کرنے کے لیے ہاتھ سے محسوس کرنے کو ہی کافی سمجھتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً  80لاکھ افراد سرطان سے ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے ماہرین صحت تمباکو نوشی سے پرہیز اور ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور چھاتی کے سرطان سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں اس کی تشخیص کے علاوہ چالیس سال سے زائد عمر کی خواتین کو سال میں ایک بار میموگرافی ضرور کروانی چاہیے۔ مثانے کے قریب پائے جانے والے غدود کے سرطان سے بچاؤ کے لیے پچاس سال کی عمر کے بعد ہر مرد کو سال میں ایک بار اپنے غدود کا معائنہ کروانا چاہیے۔ بریسٹ کینسر کی تشخیص میں  خواتین کے لئے  میمو گرافی   کی اہمیت اور ضروری  میموگرافی سے سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کے بڑے ہونے سے پہلے ہی اس کی تشخیص کر لیتا ہے ۔ امریکی تحقیق کے مطابق میموگرافی نہ کرانے والی بریسٹ کینسر کی مریض خواتین کے زندہ بچنے کے امکانات ان مریض خواتین کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں جو باقاعدگی سے اپنا معائنہ کرواتے ہیں۔ لہذا میمو گرافی نہ کرانے والی خواتین کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔  میموگرام چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے مخصوص ایک ایسا ایکسرے ہوتا ہے جو کہ سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کے بڑے ہونے سے پہلے ہی اس کی تشخیص کر لیتا ہے اور یوں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ امریکن سوسائٹی آف کلینکل اونکالوجی نے اس سروے کے بعدایسی سات ہزار خواتین پر بھی تحقیق کی جن میں بریسٹ کینسر کی تشخیص کی جس سے پتہ چلا کہ کبھی بریسٹ سکریننگ نہ کرانے والی خواتین میں مرنے کی شرح 56 فیصد تھی جبکہ معائنہ کرانے والی خواتین میں یہ شرح صرف پانچ فیصد تھی۔
 کیمبرج ہاسپٹل آف بریسٹ کینسر اور ہاورڈ میڈیکل سکول کے ڈاکٹر بلیک کیڈی کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت سے بچنے کے لیے مؤثر ترین طریقہ باقاعدہ سکریننگ ہے۔ ڈاکٹر کیڈی نے مزید کہا کہ میمو گرافی کرانے والی خواتین کی شرح اموات 7۔4 جبکہ نہ کرانے والی خواتین کی شرح 56 فی صد ہوتی ہے۔ ان میں سے تقریبًا پچھتر فی صد خواتین نےباقاعدہ میموگرافی نہیں کرائی تھی۔
 الٹراساؤنڈ ، ایم آر آئی اور اور بائیوپسی بنیادی اہمیت
 خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے  اس لئے  ایسی خواتین جن کی عمریں پچاس سال یا اس سے زیادہ ہو ان کو مکمل طور پر سالانہ سکریننگ کروانی چاہئے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ وہ خواتین جنہیں  اپنی چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی محسوس کریں تو فوراً کسی مستند ریڈیالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص سے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے مریض کو بچایا جاسکے۔
 میڈیکل سائنس میں الٹراساؤنڈ بنیادی تشخیص کا درجہ رکھتا ہے شعبہ ریڈیالوجی نے انسان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے الٹرا ساؤنڈ کی شعاعیں مضر صحت نہیں الٹرا ساؤنڈ آواز کی خاص لہریں ہیں جن کی فریکوئنسی بہت زیادہ ہے اور انسانی کان اس آواز کو نہیں سن سکتے۔یہ مختلف طریقوں سے بیماریوں کی تشخیص میں استعمال کی جاسکتی ہیں جن میں خصوصاً ُ پیٹ، جگر کی بیماریاں، گردے، مثانے، پتے کی پتھریاں اور ہر قسم کی رسولیوں کے لئے الٹراساؤنڈ انتہائی اہم ہے۔
اس کے علاوہ چھاتی کی گلٹیاں اور گلہڑ میں الٹراساؤنڈ اہم کردار ادا کرتا ہے انہوں نے کہا کہ الٹراساؤنڈ کے ذریعے بریسٹ کینسر  کی قبل از وقت یا بروقت تشخیص ممکن ہوئی۔ اس مقصد کے لئے روایتی طور پر ایم آر آئی سکیننگ اور میمو گرافی کی مدد لی جاسکتی ہے۔ بریسٹ کی شرح خواتین میں زیادہ ہے۔ مردوں میں بھی ایک فی صدبرسیٹ  کینسر پایا جاتا ہے اس کے علاوہ مردوں میں پھیپھڑے اور مردانہ غدودکا کینسر نمایاں ہیں۔ جدید ریسرچ سے نیو کلیئر میڈیسن، کلر ڈاپلر الٹراساؤنڈ اور 4D / 3D الٹراساؤنڈ اب پاکستان میں متعارف ہوچکے ہیں۔ کلر ڈاپلر الٹراساؤنڈ سے جسم میں خون سپلائی کرنے والی نالیوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔جو کہ فالج کے مریضوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔
بریسٹ کینسر کا علاج اور پیشگی حفاضتی تدابیر بھی ممکن ہیں
چھاتی کا کینسر کوئی نیا مرض نہیں ہے بلکہ زمانہ قبل از مسیح میں بھی مصر میں ماہرین طب نے چھاتی کے کینسر میں مبتلا 12 مریض دریافت کرلئے تھے مگر اس وقت طریق علاج نہ جانے کیا ہوگا کیونکہ 1500ءمیں سرجری کے ذریعے کینسر کو ختم کردینے کا آغاز ہوا مگر ماہرین طب اس نتیجے پر پہنچے کہ سرجری کوئی حتمی، دائمی اور شافی علاج نہیں بلکہ وقتی طور پر مریض کی تکلیف دور ہوجاتی ہے اور کینسر کچھ مدت کے بعد پھر پھوٹ نکلتا ہے تاہم اب تک کینسر پر قابو پانے کے باب میں بڑا کام تو ہوچکا ہے لیکن ابھی تک بعض پیچیدگیاں ناقابل فہم ہیں جن کو سمجھ لینے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔
خواتین کو چھاتی کے کینسر سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے شیر خوار بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے کے بجائے اپنا دودھ پلانا چاہئے۔ پاکستانی کینسر ریسرچ فاونڈیشن آف پاکستان کی ریسرچ آفسیر  ڈاکٹر خالدہ عثمانی کے مطابق خواتین کو رات کو بریزیر اتار کر سونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول ایسا نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ سفید یا جلد کے رنگ جیسی کاٹن کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی زیر جامہ استعمال کرنی چاہیے اور اس کی صفائی کا بہت خیال کرنا چاہیے۔چھاتی کے اوپر قمیض بھی ڈھیلی ہونی چاہیے وگرنہ دونوں چھاتیوں کے گھٹ جانے سےان کے درمیان پھوڑے بن جاتے ہیں جو بعد ازاں خطرناک ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر خالدہ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ چھاتی میں ہونے والی کسی بھی معمولی تبدیلی کو بھی خواتین کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ڈاکٹر خالدہ کے بقول  طبی تحقیقات کے سبب کینسر کا علاج کسی حد تک ممکن ہے اور مریض کی لمبی زندگی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ان میں سے ایک طریقہ ای ایم ٹیکنالوجی کہلاتا ہے جس میں مریضہ کو اینٹی آکسیڈنٹ دیے جاتے ہیں۔یہ دوا قدرے چیزوں سے کشید کی گئی ہے اور اسے جاپان نے سب سے پہلے تیار کیا۔ یہ دوا مریض کی قوت مدافعت بڑھاتی ہے اور جب کسی مریضہ کے چھاتی کے کینسر کا آپریشن کر دیا جائے تو یہ دوا دینے سے اس میں دوبارہ کینسر بننے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ دوا جسم میں موجود نقصان دہ مادے کو ختم کر کے قوت مدافعت بڑھاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری شدہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پانچ ارب لوگ ایسے ہیں، جن کی ادویات تک رسائی محدود ہے۔ ان میں بعض غریب ملکوں کے افراد دوا حاصل کرنے کے لئے مطلوبہ معمولی رقم بھی نہیں رکھتے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ انسداد سرطان کی دوائیں یقینی طور پر خاصی مہنگی ہیں اور بے شمار ملکوں کی غریب عوام ان تک رسائی حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
لہذا  اس خطرناک مرض کے علاج کے لئے سب سے پہلے تشخیص ، پھر ایک مستند ڈاکٹر سرجن سے تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے ، عام طور پر بریسٹ کینسر کا علاج اس کے  مراحل  دیکھ کر کیا جاتا ہے ۔پوری دنیا میں بریسٹ کینسر کا علاج مندرجہ زیل طریقوں ہی سے کیا جاتا ہے ۔
1.کینسر کی ادویات جیسے tamoxifen, anastrozole  وغیرہ ہیں ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے کہ ہر دوا کے جہاں اچھے اثرات ہوتے ہیں وہاں پر اس کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں ۔
2. سرجری جس میں گٹلی نکالی جاتی ہے یا پھر پستان کو ہی نکال دیا جاتا ہے ۔ اس سرجری میں  بھی نکالے جاتے ہیں۔
3. کیمو تھراپی ( Chemotherapy )
4. ریڈیوتھراپی ( Radiotherapy )
عالمی شہرت یافتہ امریکی سائیکل سوار لانس آرمسٹرانگ کی قائم کردہ کینسر سے آگہی سے متعلق بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ''لیو سٹرانگ''  کے صدر ڈاگ المان کا عالمی کینسر کانگریس میں کہنا  ہے کہ بہت جلدکینسر کے ماہرین پانچ مختلف ملکوں میں سرطانی امراض کے لئے دوا ساز اداروں سے ادویات کو خرید کر انہیں سستے داموں فراہم کریں گی۔ اس کار خیر میں ان کی تنظیم بھی شامل ہے۔جن ملکوں میں پروجیکٹ شروع کرنے کا منصوبہ ہے ان میں ہندوستان، روانڈا، ہیٹی، ملاوی اور اردن شامل ہیں۔
سن 2008 میں سرطان سے مرنے والوں کی تعداد 76 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو کم از کم سال میں ایک مرتبہ  اپنا معائنہ  ضرور کروانا چاہٍے۔ اور یہ بہت ضروری ہے کہ  مائیں اپنی بیٹیوں سے اس خطرناک مرض سے متعلق بات چیت کریں اور باقاعدگی سے چیک اپ کروانے کی عادت ڈالیں۔
Citilab & Research Centre 
offer 
Free Breast Cancer Clinic in Lahore Pakistan 
Citi Lab & Research Centre in Lahore Pakistan “Encourages sharing of best practices & promotes use of the technology & education in order to demonstrate efficiencies, diagnose awareness & its ultimate benefits to patient care”


No comments:

Post a Comment

How to use Citi Lab Mobile App